افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ریستوران پر خودکش حملے اور فائرنگ سے 13 غیر ملکیوں سمیت کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
یہ حملہ جمعے کی شام ’ٹیورن ڈی لوبان‘ نامی ریستوران میں اس وقت ہوا جب وہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
ہلاک ہونے والوں میں 13 غیر ملکی ہیں جن میں روسی، برطانوی، لبنانی اور کینیڈا کے شہری شامل ہیں۔
یہ ریستوران وزیر اکبر خان نامی علاقے میں واقع ہے اور غیرملکیوں میں بہت مقبول ہے۔ اس علاقے میں کئی غیر ملکی سفارت خانے اور اداروں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
افغانستان میں عالمی مالیاتی فنڈ کے نمائندے اور ایک برطانوی شہری کی اس دھماکے میں ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کے عملے کے چار ارکان ہلاک ہوئے ہیں۔
ملک کے نائب وزیرِ داخلہ محمد ایوب سالانگی نے بتایا ہے کہ ’خودکش حملہ آور نے اس ریستوران کے دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑایا۔جس کے بعد دو مسلح افراد
ریستوران میں داخل ہوئے اور وہاں موجود افراد پر بلاتفریق فائرنگ کی۔‘
نائب وزیرِ داخلہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔
افغان حکام کے مطابق ان دونوں حملہ آوروں کو افغان سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے۔
اس حملے کے چند گھنٹے بعد کابل میں اقوامِ متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ ان کے چار اہل کار جو ممکنہ طور پر اس علاقے میں موجود تھے، لاپتہ ہیں۔ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے ترجمان
آری گیتانس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ان افراد کے بارے میں
معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
اے ایف پی کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ افغانستان میں ادارے کے نمائندے لبنان سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ وادل عبداللہ بھی اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
برطانوی دفترِ خارجہ نے بھی اس حملے میں ایک برطانوی شہری کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ لندن میں دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ ’ہم ایک برطانوی شہری کی
ہلاکت کی تصدیق کر سکتے ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کی مدد کے لیے تیار ہیں۔‘
افغان طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے دانستہ طور پر غیرملکیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کے ایک ترجمان نے حال ہی میں بی بی سی سے بات چیت میں کہا ہے کہ طالبان کو یقین ہے کہ وہ افغانستان میں غیر ملکی افواج پر فتح حاصل کر لیں گے۔
ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کے جان سمپسن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں طالبان ہر جگہ نظر آتے ہیں جبکہ غیر ملکی افواج کے اہلکار اپنے اڈوں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ طالبان دوبارہ وہاں قابض ہو جائیں گے تاہم سال 1996 میں ان کا کابل پر قبضہ غیرمتوقع تھا اور انتخابات میں ایک کمزور اور بدعنوان صدر کے انتخاب کی صورت میں طالبان مضبوط ہو سکتے ہیں۔